پیر پگارا مردان شاہ راشدی کے بارے میں شائع شدہ مضمون
صدر لغاری ایک خاندانی آدمی ہیں لغاری صاحب نے جس روزحلف اٹھایااس روز ان کی پیپلزپارٹی سے ہمدردیاں ختم ہو گئیں ہیں وہ ایک بیوروکریٹ ہیں میں تو مئی کی گرمی سے چلا رہا ہوں اور ابھی حالات کو بغور دیکھ رہا ہوں اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ صدارت اوروزارت اعظمیٰ ایک ہی پارٹی کے پاس ہیں موجودہ نظام حکومت میں صدر اپنے منصب اور دائرہ کار کے اعتبار سے وزیر اعظم اور حکومت پر واچ ڈاگ کا کام کرتا ہے ۔یہ باتیں پیر صاحب پگارا نے 1993دسمبر میں اسوقت کہیں تھیں جب صدر فاروق احمد لغاری کو صدرکا حلف اٹھائے ہوئے چند ماہ کی مدت بھی نہیں گزری تھی اسوقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آیندہ آگے چل کر پیپلز پارٹی کے اندر اس طرح کا رخنہ پڑے گا کہ پارٹی کی جانب سے نامزد کیا جانے والا صدر خود پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ دے گا۔
یہ پیر پگاڑا کا انداز ہے کہ وہ باتوں باتوں میں وہ بات کہہ جاتے ہیں جس کے بارے میں کوئی گمان بھی نہیں کرسکتا ہے اندازہ نہیں کرسکتا ہے کہ اندرونِ خانہ اس طرح کے معاملات ہو رہے ہیں اس وقت پر پگارا کی یہ باتیں عجیب سی محسوس ہوتی ہیں مگر کچھ ہی دنوں کے بعد جب اندر کے معاملات باہر آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جو بھی بات کہی گئی تھی اس میں سو فیصد حقیقت تھی سچائی تھی بس اس سچائی کو عوام سے چھپا کر رکھا گیا تھا اسی طرح پیر پگارا نے ایک پیشن گوئی اس وقت کی تھی جب ابھی نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تھا اور ابھی وہ وزارت اعظمیٰ کے اسرار اور رموز کو سمجھ رہے تھے اور ان سے واقفیت حاصل کررہے تھے اور
ْٓ وزیر اعظم ہاوس کی غلام گردشوں سے ابھی پوری طرح سے واقفیت بھی حاصل نہیں کی تھی اس وقت پیر پگارا نے کہا تھا کہ ہاتھ کا بنا ہوا نشان ، فخر اور نشان اب اپنے بنانے والوں کو ہاتھ دکھانے کی سوچ رہا ہے اس وقت کوئی یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس طرح کی کھچڑی پک رہی ہے ؟ پیر صاحب پگارا کی جانب سے اس بیان کے آنے کے بعد ہی تو ملک کی مقتدر قوتوں کے اندر کھل بھلی مچی اور انہوں نے ان دوسرے پہلوں کی جانب بھی دیکھنا شروع کیا جن کے بارے میں وہ اب تک سوچ نہیں رہے تھے یہ پیر پگارا کا انداز اور اسٹائل ہے کے وہ عوام کو باخبر رکھنے کے لئے جب کوئی بات کہتے ہیں تو اس کے اندر صرف اندازے نہیں ہوتے بلکے تمام سچائیاں پنہاں ہوتی ہیں اسی طرح جب 12اکتوبر سے قبل ملک بھر میں حالات ایک خاص رخ اختیار کررہے تھے اسوقت پیر پگارا نے جو پیشن گوئیاں کیں تھیں ان کی حقیقت بعد میں رونما ہونے والے واقعات نے ثابت کردی کہ پیر پگارا نے اس وقت جو کچھ بھی کہا تھا اس میں گہرائی تھی مگر یہ کچھ لوگوں کی بد نصیبی تھی کہ وہ ان کو سمجھ نہیں سکے پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کے جب سے پیر پگارا پاکستان آئے ہیں (لیاقت علی خان کے دور میں پیر پگارا اور ان کے بھائی کو لندن سے بلوا کر ان کی اس گدی کو بحال کیا گیا تھا جس کو انگریزوں کے دور میں ختم کردیا گیا تھا )اور انہوں نے گدی نشینی اختیار کرنے کے بعد سب سے پہلے اپنے مریدوں کو جو ہدایت دیں وہ یہ تھی کہ پاکستان کے وفادار رہو پاکستان کے دفاع کی خاطر کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے کبھی گریز نہ کرنا شاہ مرداں شاہ پیر صاحب پگاراکے اس فرمان کی تعمیل ان کے مرید آج تک اس طرح سے کرتے آئے ہیں کہ سندھ میں حر پاکستانی افواج کی سیکنڈ ڈیفنس لائین ہیں اور افواج پاکستان ملک کے دفاع کے لئے بے دھڑک ان پر اعتبار کرتیں ہیں ۔پیر پگاراکی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کے ملک کی کوئی بھی قوت چاہے یا نہ چاہے ان کو نظرانداز نہیں کرسکتی ہے۔ جب زوالفقار علی بھٹو اپنی تعلیم کو مکمل کرکے پاکستان آئے اور انہوں نے عملی زندگی میں حصہ لینا شروع کیا تو اس وقت آگے بڑھنے کے لئے انہوں نے جو سہارا ڈھوندا تھا وہ پیر پگاڑا کا تھا اس وقت مرحوم زوالفقار علی بھٹو نے شاہ مرداں شاہ پیر صاحب پگارا سے رابطے قائم کرنا شروع کئے سردار شیر بازمزاری اس حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ مرحوم جام صادق نے اپنے گھر میں پیر پگارا کی دعوت کی تھی اس دعوت میں شرکت کے لئے (زولفی ) ز والفقارعلی بھٹو نے سردار شیر باز مزاری کو ٹیلی فون کرکے کہا کہ میں تمہارے ساتھ جام صادق کے یہاں جاؤں گا پھر جب وہ سردار شیر باز مزاری کے ہمراہ ان کی گاڑی میں بیٹھ کر جام صادق کے یہاں جانے کے لئے سردار شیر باز مز ا ر ی کی گاڑی میں بیٹھے تو دوران سفر وہ پیر پگارا کی برائیاں کر تے رہے مگر جب وہ جام صادق علی کے یہاں پہنچے تو وہاں
مو جود پیر پگار اکی قدم بوسی کرنے لگے ااور اس دوران سردار شیر باز مزاری کو آنکھ کا اشارہ کرنے لگے کہ مطلب پڑے تو-یہ صرف زوالفقار علی بھٹو کا یہی معاملہ نہیں ہے بعد میں زوالفقار بھٹو پیر صاحب پگارا کا سہارا لے کر اس وقت کے صدر اسکندر مرزا تک پہنچے جنہوں نے پہلی مرتبہ زوالفقارعلی بھٹو کو اقوام متحدہ بھیجے جانے والے پاکستانی وفد کا رکن بنا کربھیجا گیا جس کے بعد زوالفقار علی بھٹو کے لیے ملک کی فارن سروس کے دروازے کھلتے چلے گئے اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ اس کے بعد ملک کے وزیرخارجہ بنے پھر اس کے بعد پاکستان کی تاریخ کے سب سے مضبوط ترین وزیر اعظم بنے مگر انہوں نے چونکہ پیچھے مڑکر دیکھنا چھوڑدیا تھا اس لئے وہ انہوں نے ان دنوں کی یاد کو بھلانے کی اور ہر اس نقش کو مٹانے کی کوشش کی جس سے معاضی کی یاد ستاتی تھی ۔اس لئے ان کے اختلافا ت پیر
صا حب پگارا سے ہوئے اور یہ بھی وقت نے ثابت کیا اس میں نقصان زولفقار علی بھٹو کا ہی ہوا یہ صرف زوالفقار علی بھٹو مرحوم تک ہی محدود نہیں ہے بلکے ملک کی ہر بڑی شخصیت نے اپنے برے وقت میں اور اپنے آپ کو ان حالات سے نکالنے کے لئے پیر پگارا کی مدد حاصل کی ہے ان کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے جبکہ پیر پگارا نے اس موقع پر ان کی بلا دریغ امدا د کی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب غیر جماعتی انتخاب کے نتیجے میں پارلیمنٹ وجود میں آئی تو اس وقت وزیر اعظم محمد خان جونیجو کا انتخاب کیا گیا جو کیپیر صاحب پگار کے مرید تھے اس وقت جب اس اسمبلی کا جائزہ لیا گیا تو پیر پگارا کے اس مرید کے علاوہ کوئی دوسرا بہتر چوائیس سامنے نہیں آسکا تھا اور وقت نے ثابت کیا کہ مسلم لیگ کے احیا ء کے لئے یہ چوائیس بہتر ثابت ہوا۔
جب ۱۹۷۰ کے انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہو گیا اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی برسر اقتدا ر آئی تو اس وقت مسلم لیگ کا تو ایک طرح سے نام و نشان تک مٹ چکا تھا اس وقت مسلم لیگیوں پر بھٹو کا خوف تاری تھا کہ اب بھٹو ان سے انتقام لے گا اس مقصد کے لئے تمام مسلم لیگی اکھٹا ہو کر پیر صاحب پگار ا کے پاس گئے بقول مرحوم مسلم لیگی رہنما اقبال احمد خان کے انہیں منانے کے لئے چوہدری ظہور الٰہی اور رانا خداداد اور دو تین مسلم لیگی رہنما گئے تھے اس وقت بھٹو چھایا ہوا تھا اس کا خوف تھا انہوں نے آپس میں صلح کی کہ پیر صاحب پگارا کے حر بہت بڑی طاقت ہیں وہ آجائیں گے توہماری پروٹیکشن ہو جائیگی ۔اس واسطے وہ پیر صاحب کو منا لائے تھے جس کے بعد اس وقت کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلم لیگ کواصل طاقت پیر پگارا کے صدر بننے کے بعد حاصل ہوئی اور پی این اے کی بھٹو کے خلاف تحریک میں اندرونِ سندھ اور پنجاب کے جنوبی حصے میں پیر صاحب پگاراکے مریدوں نے ہی اہم ترین کردار ادا کیا تھا
سندھ میں ان کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت پیر پگارا کی آشیر بادکے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی ہے جس نے بھی اس نکتے کو نظر ا نداز کیا وہ کامیاب نہیں ہو سکا ہے مرحوم جام سادق اور جن دیگر وزراء اعلیٰ نے اس نکتے کو سمجھ لیا تمام تر کمزوریوں کے باوجود وہ کامیاب رہے جیسا کہ جام صادق کی حکومت کا معاملہ تھا کہ صرف ایک سیٹ ہونے کے باوجود انہوں نے مضبوط حکومت قائم کی تھی اس کی اصل وجہہ یہ ہی ہے کہ پیر پگارا کی آشیر باد ان کو حاصل تھی اسی طرح یہ بات بھی اب اوپن سیکرٹ بن چکی ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود ان کے مخالفین اپنے معاملات ا ور مسائل کو حل کرانے کے لئے پیر صاحب پگارا کے پاس ہی آتے ہیں اور کنگری کا پیر ان کے مسائل کو حل کرتا ہے اب جب کے اس وقت ملک میں عام انتخابات منعقد ہو چکے ہیں ا اور اب وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی حکومتیں قائمہو چکیں ہ اس وقت ایک طرح سے تمام ملک میں جمہوریت آچکی ہے یقیناًآیندہ نئی سیاسی صورتحال میں پیر صاحب پگار ا اہم ترین کردار ادا کریں گے جب کے پیر صاحب پگارا کی پیشنگوئیاں سیاست کی نئی جہتوں اور گوشوں کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔ اس کا بھی امکان ہے کے ایوان اقتدار میں رونما ہونے والے واقعات اور معاملات پر سے بھی پردہپیر صاحب پگار ا کے ذریعے سے ہٹے اور عوام تک یہ معاملات پہنچ سکیں ایسے میں سیاست کے مبتدیوں نوواردوں اور آزمودکاروں کے کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کے وہ پیر صاحب پگاراکی پیشن گوئیوں پر توجہ دیں کیونکے ان کے زریعے سے ہی وہ ایوان اقتدار کی غلام گردشوں میں رونما ہونے والی تبدیلوں سے واقف ہو سکیں گے اور اگر دور اندیش ثابت ہوئے تو اپنا آئندہ کا لایحہ عمل بھی بنا سکیں گے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ پیر پگاڑا کا انداز ہے کہ وہ باتوں باتوں میں وہ بات کہہ جاتے ہیں جس کے بارے میں کوئی گمان بھی نہیں کرسکتا ہے اندازہ نہیں کرسکتا ہے کہ اندرونِ خانہ اس طرح کے معاملات ہو رہے ہیں اس وقت پر پگارا کی یہ باتیں عجیب سی محسوس ہوتی ہیں مگر کچھ ہی دنوں کے بعد جب اندر کے معاملات باہر آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جو بھی بات کہی گئی تھی اس میں سو فیصد حقیقت تھی سچائی تھی بس اس سچائی کو عوام سے چھپا کر رکھا گیا تھا اسی طرح پیر پگارا نے ایک پیشن گوئی اس وقت کی تھی جب ابھی نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تھا اور ابھی وہ وزارت اعظمیٰ کے اسرار اور رموز کو سمجھ رہے تھے اور ان سے واقفیت حاصل کررہے تھے اور
ْٓ وزیر اعظم ہاوس کی غلام گردشوں سے ابھی پوری طرح سے واقفیت بھی حاصل نہیں کی تھی اس وقت پیر پگارا نے کہا تھا کہ ہاتھ کا بنا ہوا نشان ، فخر اور نشان اب اپنے بنانے والوں کو ہاتھ دکھانے کی سوچ رہا ہے اس وقت کوئی یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس طرح کی کھچڑی پک رہی ہے ؟ پیر صاحب پگارا کی جانب سے اس بیان کے آنے کے بعد ہی تو ملک کی مقتدر قوتوں کے اندر کھل بھلی مچی اور انہوں نے ان دوسرے پہلوں کی جانب بھی دیکھنا شروع کیا جن کے بارے میں وہ اب تک سوچ نہیں رہے تھے یہ پیر پگارا کا انداز اور اسٹائل ہے کے وہ عوام کو باخبر رکھنے کے لئے جب کوئی بات کہتے ہیں تو اس کے اندر صرف اندازے نہیں ہوتے بلکے تمام سچائیاں پنہاں ہوتی ہیں اسی طرح جب 12اکتوبر سے قبل ملک بھر میں حالات ایک خاص رخ اختیار کررہے تھے اسوقت پیر پگارا نے جو پیشن گوئیاں کیں تھیں ان کی حقیقت بعد میں رونما ہونے والے واقعات نے ثابت کردی کہ پیر پگارا نے اس وقت جو کچھ بھی کہا تھا اس میں گہرائی تھی مگر یہ کچھ لوگوں کی بد نصیبی تھی کہ وہ ان کو سمجھ نہیں سکے پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کے جب سے پیر پگارا پاکستان آئے ہیں (لیاقت علی خان کے دور میں پیر پگارا اور ان کے بھائی کو لندن سے بلوا کر ان کی اس گدی کو بحال کیا گیا تھا جس کو انگریزوں کے دور میں ختم کردیا گیا تھا )اور انہوں نے گدی نشینی اختیار کرنے کے بعد سب سے پہلے اپنے مریدوں کو جو ہدایت دیں وہ یہ تھی کہ پاکستان کے وفادار رہو پاکستان کے دفاع کی خاطر کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے کبھی گریز نہ کرنا شاہ مرداں شاہ پیر صاحب پگاراکے اس فرمان کی تعمیل ان کے مرید آج تک اس طرح سے کرتے آئے ہیں کہ سندھ میں حر پاکستانی افواج کی سیکنڈ ڈیفنس لائین ہیں اور افواج پاکستان ملک کے دفاع کے لئے بے دھڑک ان پر اعتبار کرتیں ہیں ۔پیر پگاراکی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کے ملک کی کوئی بھی قوت چاہے یا نہ چاہے ان کو نظرانداز نہیں کرسکتی ہے۔ جب زوالفقار علی بھٹو اپنی تعلیم کو مکمل کرکے پاکستان آئے اور انہوں نے عملی زندگی میں حصہ لینا شروع کیا تو اس وقت آگے بڑھنے کے لئے انہوں نے جو سہارا ڈھوندا تھا وہ پیر پگاڑا کا تھا اس وقت مرحوم زوالفقار علی بھٹو نے شاہ مرداں شاہ پیر صاحب پگارا سے رابطے قائم کرنا شروع کئے سردار شیر بازمزاری اس حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ مرحوم جام صادق نے اپنے گھر میں پیر پگارا کی دعوت کی تھی اس دعوت میں شرکت کے لئے (زولفی ) ز والفقارعلی بھٹو نے سردار شیر باز مزاری کو ٹیلی فون کرکے کہا کہ میں تمہارے ساتھ جام صادق کے یہاں جاؤں گا پھر جب وہ سردار شیر باز مزاری کے ہمراہ ان کی گاڑی میں بیٹھ کر جام صادق کے یہاں جانے کے لئے سردار شیر باز مز ا ر ی کی گاڑی میں بیٹھے تو دوران سفر وہ پیر پگارا کی برائیاں کر تے رہے مگر جب وہ جام صادق علی کے یہاں پہنچے تو وہاں
مو جود پیر پگار اکی قدم بوسی کرنے لگے ااور اس دوران سردار شیر باز مزاری کو آنکھ کا اشارہ کرنے لگے کہ مطلب پڑے تو-یہ صرف زوالفقار علی بھٹو کا یہی معاملہ نہیں ہے بعد میں زوالفقار بھٹو پیر صاحب پگارا کا سہارا لے کر اس وقت کے صدر اسکندر مرزا تک پہنچے جنہوں نے پہلی مرتبہ زوالفقارعلی بھٹو کو اقوام متحدہ بھیجے جانے والے پاکستانی وفد کا رکن بنا کربھیجا گیا جس کے بعد زوالفقار علی بھٹو کے لیے ملک کی فارن سروس کے دروازے کھلتے چلے گئے اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ اس کے بعد ملک کے وزیرخارجہ بنے پھر اس کے بعد پاکستان کی تاریخ کے سب سے مضبوط ترین وزیر اعظم بنے مگر انہوں نے چونکہ پیچھے مڑکر دیکھنا چھوڑدیا تھا اس لئے وہ انہوں نے ان دنوں کی یاد کو بھلانے کی اور ہر اس نقش کو مٹانے کی کوشش کی جس سے معاضی کی یاد ستاتی تھی ۔اس لئے ان کے اختلافا ت پیر
صا حب پگارا سے ہوئے اور یہ بھی وقت نے ثابت کیا اس میں نقصان زولفقار علی بھٹو کا ہی ہوا یہ صرف زوالفقار علی بھٹو مرحوم تک ہی محدود نہیں ہے بلکے ملک کی ہر بڑی شخصیت نے اپنے برے وقت میں اور اپنے آپ کو ان حالات سے نکالنے کے لئے پیر پگارا کی مدد حاصل کی ہے ان کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے جبکہ پیر پگارا نے اس موقع پر ان کی بلا دریغ امدا د کی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب غیر جماعتی انتخاب کے نتیجے میں پارلیمنٹ وجود میں آئی تو اس وقت وزیر اعظم محمد خان جونیجو کا انتخاب کیا گیا جو کیپیر صاحب پگار کے مرید تھے اس وقت جب اس اسمبلی کا جائزہ لیا گیا تو پیر پگارا کے اس مرید کے علاوہ کوئی دوسرا بہتر چوائیس سامنے نہیں آسکا تھا اور وقت نے ثابت کیا کہ مسلم لیگ کے احیا ء کے لئے یہ چوائیس بہتر ثابت ہوا۔
جب ۱۹۷۰ کے انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہو گیا اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی برسر اقتدا ر آئی تو اس وقت مسلم لیگ کا تو ایک طرح سے نام و نشان تک مٹ چکا تھا اس وقت مسلم لیگیوں پر بھٹو کا خوف تاری تھا کہ اب بھٹو ان سے انتقام لے گا اس مقصد کے لئے تمام مسلم لیگی اکھٹا ہو کر پیر صاحب پگار ا کے پاس گئے بقول مرحوم مسلم لیگی رہنما اقبال احمد خان کے انہیں منانے کے لئے چوہدری ظہور الٰہی اور رانا خداداد اور دو تین مسلم لیگی رہنما گئے تھے اس وقت بھٹو چھایا ہوا تھا اس کا خوف تھا انہوں نے آپس میں صلح کی کہ پیر صاحب پگارا کے حر بہت بڑی طاقت ہیں وہ آجائیں گے توہماری پروٹیکشن ہو جائیگی ۔اس واسطے وہ پیر صاحب کو منا لائے تھے جس کے بعد اس وقت کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلم لیگ کواصل طاقت پیر پگارا کے صدر بننے کے بعد حاصل ہوئی اور پی این اے کی بھٹو کے خلاف تحریک میں اندرونِ سندھ اور پنجاب کے جنوبی حصے میں پیر صاحب پگاراکے مریدوں نے ہی اہم ترین کردار ادا کیا تھا
سندھ میں ان کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت پیر پگارا کی آشیر بادکے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی ہے جس نے بھی اس نکتے کو نظر ا نداز کیا وہ کامیاب نہیں ہو سکا ہے مرحوم جام سادق اور جن دیگر وزراء اعلیٰ نے اس نکتے کو سمجھ لیا تمام تر کمزوریوں کے باوجود وہ کامیاب رہے جیسا کہ جام صادق کی حکومت کا معاملہ تھا کہ صرف ایک سیٹ ہونے کے باوجود انہوں نے مضبوط حکومت قائم کی تھی اس کی اصل وجہہ یہ ہی ہے کہ پیر پگارا کی آشیر باد ان کو حاصل تھی اسی طرح یہ بات بھی اب اوپن سیکرٹ بن چکی ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود ان کے مخالفین اپنے معاملات ا ور مسائل کو حل کرانے کے لئے پیر صاحب پگارا کے پاس ہی آتے ہیں اور کنگری کا پیر ان کے مسائل کو حل کرتا ہے اب جب کے اس وقت ملک میں عام انتخابات منعقد ہو چکے ہیں ا اور اب وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی حکومتیں قائمہو چکیں ہ اس وقت ایک طرح سے تمام ملک میں جمہوریت آچکی ہے یقیناًآیندہ نئی سیاسی صورتحال میں پیر صاحب پگار ا اہم ترین کردار ادا کریں گے جب کے پیر صاحب پگارا کی پیشنگوئیاں سیاست کی نئی جہتوں اور گوشوں کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔ اس کا بھی امکان ہے کے ایوان اقتدار میں رونما ہونے والے واقعات اور معاملات پر سے بھی پردہپیر صاحب پگار ا کے ذریعے سے ہٹے اور عوام تک یہ معاملات پہنچ سکیں ایسے میں سیاست کے مبتدیوں نوواردوں اور آزمودکاروں کے کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کے وہ پیر صاحب پگاراکی پیشن گوئیوں پر توجہ دیں کیونکے ان کے زریعے سے ہی وہ ایوان اقتدار کی غلام گردشوں میں رونما ہونے والی تبدیلوں سے واقف ہو سکیں گے اور اگر دور اندیش ثابت ہوئے تو اپنا آئندہ کا لایحہ عمل بھی بنا سکیں گے ۔۔۔۔۔۔۔